Amar Jaleel’s Karachi — Fading Memories, Dying Civilization | A Special Tribute on His Birthday
Автор: Mukhtar Ali
Загружено: 2025-11-07
Просмотров: 39
🖋️ امرجلیل کا کراچی — یادوں کا شہر
آج آٹھ نومبر، سندھ کے روشن خیال ادیب، کہانی نویس اور فکری باغی امر جلیل کا یومِ پیدائش ہے۔
امر جلیل، جن کا اصل نام قاضی عبدالجلیل ہے، آٹھ نومبر انیس سو چھتیس کو روہڑی میں پیدا ہوئے۔
زندگی کا بیشتر حصہ انہوں نے کراچی میں بسر کیا،
اور یہی شہر ان کی تعلیم، روزگار، اور فکری سفر کا محور رہا۔
انہوں نے انسانی ضمیر، مساوات، اور مذہبی رواداری جیسے موضوعات پر بے خوفی سے قلم اٹھایا۔
سچ کہنا ان کی عادت نہیں، ان کی شناخت تھی۔
ان کا قلم ہمیشہ انسان اور انسانیت کے درمیان موجود دیواروں کو توڑنے کی کوشش کرتا رہا۔
کراچی ان کے دل کے بہت قریب رہا۔
حال ہی میں انہوں نے روزنامہ جنگ میں دو کالم لکھے —
“کراچی کی بھلائی نہ جانے والی باتیں”
اور
“یادِ ماضی عذاب نہیں ہے یارب”۔
یہ دونوں تحریریں کراچی کی روح، اس کے ماضی کی خوبصورتی، اور موجودہ زوال کا ایک دردناک مگر سچّا بیان ہیں۔
وہ کراچی سے ایسے مخاطب ہوتے ہیں جیسے کسی پرانے دوست یا محبوب سے —
جس نے پناہ دی، پہچان دی، مگر وقت کے ساتھ اپنی چمک کھو دی۔
کراچی کی بھلائی نہ جانے والی باتیں —
اس کالم میں امر جلیل نے پرانے کراچی کی تصویر کھینچی ہے۔
وہ دن یاد کیے جب بندر روڈ کے کنارے درختوں کے نیچے لوہے کے بینچ رکھے ہوتے تھے،
جہاں لوگ بیٹھ کر آرام کرتے، گفتگو کرتے،
جہاں گائیں اور بھینسیں سکون سے چلتی پھرتی تھیں۔
وہ زمانہ جب شہر میں جانوروں کے پانی کے حوض ہوتے تھے،
گھوڑوں اور پرندوں کے لیے پانی رکھا جاتا تھا۔
جب ٹرام سروس شہر کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک چلتی تھی —
ایک آنے میں پورا کراچی گھوم لیا جاتا تھا۔
امرجلیل افسوس کے ساتھ لکھتے ہیں کہ
“ترقی کے نام پر ہم نے اپنی شہری تہذیب مٹا دی۔
کراچی کی بھلائی ختم ہو گئی، مگر کسی نے سوال تک نہ اٹھایا۔”
دوسرا کالم “یادِ ماضی عذاب نہیں ہے یارب”
پہلے کا تسلسل ہے — مگر زیادہ روحانی، زیادہ جذباتی۔
یہ کالم کراچی کے تاریخی ورثے اور عمارتوں پر مبنی ہے۔
امرجلیل لکھتے ہیں،
“یہ شہر عجیب ہے، یہاں آنے والا واپس نہیں جاتا، یہ تمہیں اپنا بنا لیتا ہے۔”
وہ کراچی میوزیم، پورٹ ٹرسٹ بلڈنگ، پرانی عدالت اور لائبریری کا ذکر کرتے ہیں —
کہتے ہیں، یہ عمارتیں صرف پتھر نہیں، یادوں کے خزانے ہیں۔
وہ یاد کرتے ہیں کہ بچپن میں والد انہیں میوزیم لے جایا کرتے تھے۔
وہ جگہ علم، تہذیب، اور وقار کی علامت تھی۔
وقت بدلا، عمارتیں باقی رہ گئیں،
مگر ان کے اردگرد سے احترام، صفائی اور احساس کا ماحول ختم ہو گیا۔
اب وہی جگہیں خالی خالی لگتی ہیں، جیسے روح نکل گئی ہو۔
امرجلیل کا پیغام واضح ہے —
یادِ ماضی عذاب نہیں، روشنی ہے۔
ماضی ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہم کون تھے، کہاں سے آئے،
اور ہمیں اپنی پہچان کیسے بنانی تھی۔
جو قوم اپنے ماضی سے رشتہ توڑ دیتی ہے،
وہ حال میں بھی اجنبی بن جاتی ہے۔
دونوں کالموں میں ایک ہی دکھ ہے —
کراچی کا زوال صرف معیشت کا نہیں،
بلکہ تہذیب، احساس، اور انسانیت کا زوال ہے۔
ایک طرف وہ شہری بھلائی کے ختم ہونے پر افسوس کرتے ہیں،
دوسری طرف ماضی کی خوبصورتی کو یاد رکھنے کی اپیل۔
ان کے الفاظ دل میں اتر جاتے ہیں —
“ہم نے شہر کے بینچ توڑ دیے،
مگر اپنے دلوں کے بھی کچھ حصے گم کر بیٹھے ہیں۔”
آج امر جلیل کے یومِ پیدائش پر
یہ گزارش ہم سب کے لیے ہے —
کہ ہم اپنے شہر، اپنی یادوں، اور اپنی تہذیب سے دوبارہ رشتہ جوڑیں۔
کیونکہ کراچی صرف ایک شہر نہیں،
ایک احساس ہے —
جو وقت کے شور میں کہیں گم ہو گیا ہے۔
🎯
#AmarJaleel
#امرجلیل
#AmarJaleelBirthday
#امرجلیل_کی_سالگرہ
#KarachiMemories
#کراچی_کی_یادیں
#KarachiCity
#AmarJaleelColumns
#SindhiWriter
#PakistaniWriters
#UrduLiterature
#KarachiCulture
#LostKarachi
#TributeToAmarJaleel
#کراچی
#کراچی_کا_زوال
#کراچی_کی_تہذیب
#AdabiTribute
#StoryOfKarachi
#KarachiHistory
#CulturalKarachi
#RememberingAmarJaleel
#YadeMazi
#یاد_ماضی
Доступные форматы для скачивания:
Скачать видео mp4
-
Информация по загрузке: