Tajreediyat || Tajridiyyat || Tajridiat || Tajreediat || تجریدیت || Tajreed || افسانے میں تجریدیت
Автор: Urdu Teacher
Загружено: 2022-04-25
Просмотров: 1856
اس ویڈیو میں تجریدیت اور اردو افسانے میں تجرید نگاری پر بات کی گئی ہے۔۔
#Tajreediyyat #Tajreed #tajreediat #tajridiyyat
تجریدیت کیا ہے؟؟
اُردو ٹیچر کے معزز سامعین اسلام علیکم۔ آج کی ویڈیو میں ہم بات کریں گے تجریدیت کے حوالے سے۔ تجریدیت کو انگریزی میں ABSTRACTIONISM کہتے ہیں۔ اس سے مراد کسی خیالی کیفیت ہے جسے محسوس کیاجاسکے چھوا نہ جاسکے۔تجریدیت کے عناصر میں عمومیت بھی شامل ہے۔ مثال کے طور پر ہم یہ کہیں کہ مصنف حساس ہوتا ہے تو یہ تجریدیت ہے اور اگر کسی خاص مصنف کا نام لے کر کہاجائے کہ سعادت حسن منٹو حساس ہے تو پھر یہ تجریدیت کے زمرے میں نہیں آئے گا کیوں کہ یہ بات خاص ہوگئی۔جب ہم افسانے میں تجریدیت کی بات کریں تو اس میں کہانی کو حقیقی انداز میں پیش نہیں کیاجاتا بلکہ مصنف کے لاشعور میں ابھرنے والے خیالات کو کہانی کی شکل میں پیش کی جاتی ہے۔تجریدی افسانوں کے سلسلے میں سلیم اختر لکھتے ہیں:
’’اپنی خالص صورت میں تجریدی افسانے کو فلم ٹریلر سے مشابہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ فلم کے برعکس ٹریلر میں نہ تو واقعات منطقی ربط میں ملتے ہیں اور نہ ہی اس میں وحدت زماں کو ملحوظ رکھا جاتا ہے۔ اس کے باوجود ٹریلر تمام فلم کا ایک مجموعی مگر مہم سا تاثر دے جاتا ہے۔ یہی حال تجریدی افسانے کا ہے۔ روایتی افسانے میں واقعات کی کڑیاں جوڑنے کے لیے پلاٹ اور ان میں منطقی ربط رکھنے کے لیے زمانی تسلسل برقرار رکھنا لازم ہے۔۔۔ تجریدی افسانے میں شعور (حال) اور تحت الشعور(ماضی) کے ساتھ ساتھ لاشعور بھی گڈمڈ نظر آتا ہے۔"
تجریدی افسانے میں پلاٹ ، کردار اور واقعات کے تسلسل کی طرف زیادہ توجہ نہیں دی جاتی بلکہ انسانی ذہن میں پیدا ہونے والے خیالات کو کوئی بھی مصنف لکھتا جاتا ہے۔ خالدہ حسین کے افسانوں میں اس کی مثال دیکھی جاسکتی ہے۔خالدہ حسین اپنے بعض افسانوں میں بغیر کسی کردار کا نام لیے، حقیقی انداز میں لکھنے کی بجائے ذہن میں اٹھنے والے خیالا ت کو لکھتی جاتی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا کہ افسانہ نگار ی کوئی مصوری تو ہے نہیں کہ آرٹ کی طرح اس میں آڑی ترجھی لکیروں سے مفہوم نکل آئے گا۔ ہاں تجریدیت کے تعلق سے افسانہ لکھنے والے نہ تو وحدت تاثر کا لحاظ رکھتے ہیں اور نہ واقعات کی کڑیاں جوڑنے کی شرط کو مدِنظر رکھتے ہیں۔ ان کے لیے پلاٹ اور وقت کا تسلسل بھی ضروری نہیں۔ تجریدی افسانہ نگار کسی واقعے کی تشریح نہیں کرتا بلکہ اپنے خیالات لکھتا جاتا ہے اور قاری علامتوں اور اشاروں کی مدد سے افسانہ نگار کے اصل مقصد تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔خالدہ حسین کے افسانے"عہد نامہ " سے ایک مثال دیکھیے۔
شروع شروع میں مجھے اس گدلے پانی اور کائی جمی پھسلنی دیواروں سے کچھ وحشت ہوتی تھی۔ ہاں مجھے یاد ہے سانس لیتے ہوئے ہوا میں عجیب سی بساند بھی آتی تھی میں اپنے جسم کو ہر وقت سکیڑ کر رکھتا تھا۔ نہیں چاہتا تھا کہ میں اس گدلے پانی اور کائی میں لت پت ہوں۔مجھے تو ان کا چھوجانا بھی اچھا نہ لگتا تھا۔ چنانچہ دن رات اپنے آپ کو سکیڑ سکیڑ کر میرا تمام جسم۔ اس کی ایک ایک نس ٹوٹنے کے قریب تھی۔ یوں جیسے کسی چیز کو دونوں کناروں سے پکڑ کر کھینچا جائے آخری حد تک۔ اور بس اب وہ تڑپنے کے قریب ہو۔مگر کچھ ہی عرصے بعد مجھے ایک عجیب و غریب حقیقت کا احساس ہوا ۔میرے اس طرح سکڑنے ہر دم تشنج میں رہنے سے گدلے پانی ور کائی جمی پھسلنی دیواروں میں کچھ بھی تبدیلی نہ آتی تھی۔ گدلے پانی کا پھیلاؤ بھی وہی تھا۔ پھسلنی دیواروں پر جمی تہہ دار کائی کے اطمینان میں بھی کچھ فرق نہ آیا تھا۔پانی نے بھی یہ نہ جانا تھا کہ میں اس سے احتراز کرتا ہوں تو وہ ذرا پرے ہٹ جائے اور نہ ہی موٹی کائی اپنی جگہ سے سرکی تھی۔ وہ تو صرف میں ہی تھا کہ ہر دم ان سے بچنے کی کوشش میں اور بھی آلودہ ہوتا چلاجارہا تھا۔
افسانے کے اس اقتباس میں خالدہ حسین اپنے لاشعور میں اٹھنے والے خیالات کو لکھتی جارہی ہے یہ شعور کی رو کی طرح ایک بہاؤ ہے۔ اس میں یہ بھی پتہ نہیں چلتا کہ یہ کردار انسان ہے یا کوئی مینڈک۔ افسانے کے آخر تک مصنفہ نے بالکل بھی کوئی وضاحت کی سعی نہیں کی۔ نہ کردار کے نام کا پتہ چلتا ہے نہ ہی کردار کے جنس کا۔ آگے جاکر جو اشارے ملتے ہیں اُ ن سے یہ تاثر ملتا ہے کہ یہ ایک مرد کا کردار ہے۔تجریدی افسانے کی خصوصیات یوں بیاں کی جاسکتی ہیں:
تجریدی افسانے خارج سے اپنا توجہ ہٹا کر باطن کی دنیا کی طرف لے جاتے ہیں۔
تجریدی افسانوں میں ذہنی مسائل، انتشار ذات، انتشار ذہن اور عرفان ذات پر زیادہ زور دیا جاتا ہے۔
تجریدی افسانے میں لغوی معنیٰ صرف اشارہ کر دیتے ہیں۔
تجریدی افسانہ انسان کی داخلی اور نفسیاتی کیفیات کا اظہار ہوتے ہیں۔
تجریدی افسانہ لکھنے والے تکنیکی طور پر یہ محسوس کرتے ہیں کہ پلاٹ یا تو سرے سے ہوتی ہی نہیں اور اگر ہوتی بھی تو اس کی حیثیت ثانوی ہوتی۔
سامعین کرام!۔ اُمید ہے کہ اس مثال اور تمہید سے آپ تجریدیت کے بارے میں کچھ جاننے اور سمجھنے کے قابل ہوئے ہوں گے۔بہت بہت شکریہ ۔۔۔ اللہ حافظ
Доступные форматы для скачивания:
Скачать видео mp4
-
Информация по загрузке: