History of Baghanwala, Pind Dadan Khan, Jehlum
Автор: The Akadimia
Загружено: 2020-01-24
Просмотров: 3550
باغانوالہ تحصیل پنڈ دادن خان
Mughal Emperor Akbar ordered the laying out of a garden. Fruit trees were planted and, though no trace remains of it, a perimeter wall was raised to protect them from wildlife and livestock. A gatehouse with a domed roof and sentries’ cubicle afforded entrance to Akbar’s garden. Time, the Great Destroyer, laid low this garden, however. All that now remains of this intervention in this quiet corner of Jhelum district is the ruinous gateway of the garden and the name Baghanwala that arose when the garden was laid out by royal decree.
-Salman Rashid (Travel Writer)
باغانوالہ
جہلم کی تحصیل پنڈ دادن خان سے لگ بھگ 29 کلومیٹر پہلے اور جہلم شہر سے 71 کلومیٹر کے فاصلہ پر پہاڑوں کے دامن میں ایک تاریخی قصبہ باغانوالہ کے نام سے مشہور ہے- کوہستان نمک کا یہ قصبہ ایک خاص تاریخی حیثیت رکھتا ہے-
باغانوالہ کی ایک اہمیت تو یہ ہے کہ نندنا قلعہ تک جانے کا رستہ یہاں سے ہی گزرتا ہے، گویا یہ نندنا کا بیس کیمپ ہے- کسی زمانے میں یہاں ایک شہر آباد ہوا کرتا تھا جس کے نشانات یہاں واضع طور پر دیکھے جا سکتے ہیں-
باغانوالہ کی ایک اور تاریخی اہمیت یہاں مغل بادشاہ جلال الدین محمد اکبر کا لگوایا باغ ہے جس کی وجہ سے اس کا نام '' باغانوالہ'' رکھا گیا- طبقات اکبری جلد دوم صفحہ ۳۵۴ پر اس کا تذکرہ کچھ یوں بیان کیا گیا ہے-
''اس مقام پر نندنا روہتاس کے نواح میں شاہی شکار کا خیال ہوا- بادشاہ نے امراء اور کو حکم فرمایا کہ اطراف سے شکار منگوا کر وسیع میدان میں جمع کریں- چار دن میں شکار بے حساب و بے شمار جمع ہو گیا- کبھی کبھی آگے بڑھتے تھے- پھر ایسا ہوا کہ شکار گاہ دونوں طرف سے تیار ہو گیا کہ ےک بارگی اکبر بادشاہ پر ایسی حالت طاری ہوئی اور ایسا قومی جذبہ ظہور میں آیا کہ جو ذاتی و صفاتی تجلیات کا مظہر اور خسروی و کلی کا مجموعہ تھا اور اس کا الفاظ میں اظہار نہیں ہو سکتا- اس بارے میں لوگ مختلف باتیں کرتے ہیں- ایک گروہ کا یہ خیال ہے کہ بادشاہ برگزیدہ حق ہے اور اسے رجال الغیب کی صحبت حاصل ہے اور بعض حضرات کو یہ گمان ہوا کہ جنگل میں گھومنے والے بے زبان اور دشت میں پھرنے والے خاموش لب والوں نے اپنی بے زبانی کی جو کچھ انہیں کہنا تھا-
خوش آں جذبہ کہ ناگاہ رسد
آنگہی کہ یہ دل آگاہ رسد
اسی وقت بادشاہ کا حکم صادر ہوا کہ اس مقام پر ایک عمارت عالی تعمیر کی جائے اور ایک باغ لگایا جائے- وہاں اکبر بادشاہ نے اپنے سرکے بال اتروائے، شاہی بارگاہ کے اکثر مقربین نے بھی بادشاہ کو موافقت و متابعت میں اپنے اپنے سر منڈوائے- پھر اس منزل سے کوچ کیا-"
یہاں باغ اس لیے بھی لگوایا گیا کہ پانی کا چشمہ نندنا کی پہاڑی کے دامن سے بہتا ہوا اپنے ساتھ دیگر دو چشموں کو ساتھ لیتا ہوا باغانوالہ کے ساتھ رواں دواں تھا اور آج بھی اس کی روانی میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی- سارا سال بہنے والے اس چشمے سے مذکورہ بالا اکبری باغ سیراب کیا جاتا تھا-
باغانوالہ میں اکبر کا لگوایا ہوا باغ وقت کے بے رحم ہاتھوں پامال ہو گیا- اکبر کی بنوائی ہوئی عمارت کا ذکر کتابوں تک محدود ہو کر رہ گیا- اس باغ یا اکبری کی بنوائی ہوئی عمارت کا صرف ایک دروازہ آج اپنے ماضی کا نوحہ بیان کرتا ہوا کافی خستہ حالت میں کھڑا ہے- قصبہ میں باغات کے کچھ نشانات آم، جامن، پیپتا اور کھجوروں کی شکل میں باقی ہیں-
گذشتہ اتوار اس خستہ حال دروازہ کو دیکھتے ہوئے میں یہ سوچ رہا تھا کہ اپنے ورثہ کے ساتھ ہمارا یہ سلوک تعلیم کی کمی ہے یا ہماری چشم پوشی؟ کیا ہم مہذب قوم کہلانے کے حق دار ہیں؟ کسی محکمہ کو تو اس بارے میں کوئی خیال نہیں کم از کم مقامی لوگ ہی اس تاریخی ورثہ کو سنبھال لیں تو ان کا یہ اقدام یقینا" قابل تحسین ہو گا-
{ بقلم خود مرزا صفدر بیگ }
Доступные форматы для скачивания:
Скачать видео mp4
-
Информация по загрузке: