5000 Years Ancient Temple On Highest Altitude in Pakistan
Автор: Nasrullah Khan Barodi Abbasi
Загружено: 2024-06-30
Просмотров: 515
5000 Years Ancient Temple On Highest Altitude in Pakistan
@khanbarodi
Sharda Peeth/University Neelam Valley AJK Pakistan@dhruvrathee #viral #video #trending #pakistan #hindustempleinpakistan #history #hindu #ancient
• 5000 Year Ancient Jidden City Of Tulaja #...
Sharada Peth
Kashmir Valley is a land of beautiful natural scenery
They have numerous historical places within Kashmir
There is Sharda Peth in Tehsil Sharda of Neelum Valley
Sharda is located 136 km north-west of Muzaffarabad on the banks of the Neelum River and its height is 1981 meters above sea leveThis place has been the cradle of knowledge and art for Sanskrit scholars and Kashmiri Pandits.
According to historians, Sharda, the ancient Devanagari script, was created in 9th century AD.
In Sharda, the ruins of an ancient university of the Kanishka era still remain.
Historians believe that the establishment of this school took place in the first century AD during the Kanishak I period. And some people attribute the construction here to Maharaja Ashoka. This historical place is of religious importance for Hinduism and Buddhism. .
In ancient times, students from South Asia, Central Asia and China used to go here for learning.
In ancient times, students from South Asia, Central Asia and China used to go here for learningl.
शारदा पेठो
कश्मीर घाटी खूबसूरत प्राकृतिक दृश्यों की भूमि है
कश्मीर के भीतर उनके कई ऐतिहासिक स्थान हैं
नीलम घाटी की शारदा तहसील में शारदा पेठ है
शारदा मुजफ्फराबाद से 136 किमी उत्तर-पश्चिम में नीलम नदी के तट पर स्थित है और इसकी ऊंचाई समुद्र तल से 1981 मीटर है यह स्थान संस्कृत विद्वानों और कश्मीरी पंडितों के लिए ज्ञान और कला का उद्गम स्थल रहा है।
इतिहासकारों के अनुसार, शारदा, प्राचीन देवनागरी लिपि, 9वीं शताब्दी ईस्वी में बनाई गई थी।
शारदा में कनिष्क युग के एक प्राचीन विश्वविद्यालय के खंडहर आज भी मौजूद हैं।
इतिहासकारों का मानना है कि इस स्कूल की स्थापना पहली शताब्दी ईस्वी में कनिष्क प्रथम काल के दौरान हुई थी। और कुछ लोग यहां के निर्माण का श्रेय महाराजा अशोक को देते हैं। यह ऐतिहासिक स्थान हिंदू धर्म और बौद्ध धर्म के लिए धार्मिक महत्व का है। .
प्राचीन काल में, दक्षिण एशिया, मध्य एशिया और चीन के छात्र यहाँ शिक्षा के लिए जाया करते थे।
प्राचीन काल में, दक्षिण एशिया, मध्य एशिया और चीन के छात्र यहाँ सीखने के लिए जाया करते थे।
لفظ شاردہ کا مطلب ہے “شاردا کی نشست”، ہندو دیوی سرسوتی کا کشمیری نام ہے۔ “شاردا” کا مطلب “بہاؤ یا ندی”، اور ( ٹپ یا چٹان)، بھی ہو سکتا ہے کیونکہ یہ تین ندیوں کے سنگم کشن ،مدھومتی اور کنکوری پر واقع تھا۔مؤرخین کے خیال میں اس درسگاہ کا قیام پہلی صدی عیسوی میں کنشک اول دور میں عمل میں آیا تھا۔اور کچھ لوگ یہاں تعمیرات کا سہرا مہاراج اشوک کے سر باندھتے ہیں
جی ہاں جیسا نام ویسا کام اس یونیورسٹی میں جہاں قدیم سنسکرت کا دیوناگری رسم الخط شاردہ تخلیق کیا گیا۔اس یونیورسٹی میں گیان کا بھنڈار تھا اور یہاں صرف دھارمک گرنتھ ہی نہیں بلکہ لٹریچر ،لاجک ،میڈیسن ،فلکیات، فلسفہ، جراحت، سیاسیات، جنگ، تجارت اور موسیقی جیسے کئی سبجیکٹس پڑھائے جاتے تھے اور تو اور ہر سبجیکٹ کا بھرپور گیان دینے کے لیے بنائی گئی تھی لائیبریری جس میں ہزاروں بکس اور مینی سکرپٹس تھیں یہ یونیورسٹی تقریبا بارویں ویں صدی تک دنیا کو سیکھ دیتی رہی۔ لیکن کشمیر میں اسلام کی آمد کے بعد، اکثریتی آبادی نے اسلام قبول کر لیا اور جو لوگ تبدیل نہیں ہوئے وہ اس جگہ کو مذہبی طور پر مقدس مانتے رہے اور اس کی زیارت کرتے رہے۔
جموں و کشمیر میں انیس سو سینتالیس کے بعد،جب یہ علاقہ آزاد ہو گیا تو ہندو برادری کے لوگوں نے یہاں جانا چھوڑ دیا۔ یوں وقت کی دھول اس کو چاٹنے لگی ۔ اس وقت جب شاردہ یونیورسٹی کئی بلندیوں کو چھو رہی تھی وہ ہندو مت اوربدھ مت کا حصہ تھی جس کے کھنڈر آج بھی کئی ایکڑ میں پھیلی پہاڑی پر مٹی کے نیچے دب گئے ہیں یہ بڑے بڑے پتھروں کی 18 سے 28 فٹ اونچی دیواروں میں شمالاً، جنوباً مستطیل درس گاہ کے درمیان میں کنشک اول کا تعمیر کروایا ہوا ایک ہندؤ مندر ہے
تقریباً 36 فٹ بلند چبوترے کا داخلی دروازہ مغرب کی سمت ہے جو نقش و نگار اور مذہبی تحریروں یا علامات سے مزین ہے۔ شاردہ کی قدیم عبادتگاہ تک پہنچنے کے لیے 63 سیڑھیاں صدیوں سے انسانیت کا بوجھ سہار رہی ہیں۔ بڑے بڑے پتھروں سے بنی دیوار اپنی اصلی حالت میں تو موجود نہیں لیکن اب بھی اس کے آثار باقی ہیں۔ تاریخ دانوں کے مطابق کوٹلیہ چانکیہ جی سے منسوب قدیمی ٹیکسلا یونیورسٹی اور شاردا پیٹھ کے مابین تعلیمی تعاون کے بھی شواہد ملتے ہیں ۔ اور جانتے ہیں سٹوڈنس کون تھےاس یونیورسٹی میں طویل عرصے تک برصغیر، چین، وسط ایشیا سمیت دیگر علاقوں سے ایک وقت میں پانچ ہزار سے زائد طالب علم زیر تعلیم رہتے کسی زمانے میں یہاں نوروز کا جشن اور بیساکھی تہوار ایک ساتھ منایا جاتا تھا جس میں مذہبی تفریق سے بالاتر ہوکر سب کشمیری باشندے جوش و خروش سے موسم بہار کا خیرمقدم کرتے تھے شاردہ جیسی یونیورسٹیز اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان کا گیان اور علم صدیوں سے دنیا کو روشن کر رہا ہے ہم امید کرتے ہیں وقت ایک بار پھر کروٹ لے گا اور بہترین ایجوکیشن کی تلاش کرتا ہر انسان پاکستان کا رُخ کرےگا
Доступные форматы для скачивания:
Скачать видео mp4
-
Информация по загрузке: