Allama Tussaudsq hussain ka yadghar khitab 2025
Автор: Zahidstudio1975
Загружено: 2025-12-27
Просмотров: 4
ابو نصر الصیاد نامی ایک شخص اپنی بیوی اور ایک بچے کے ساتھ غربت و افلاس کی زندگی بسر کر رھا تھا۔ ایک دن وہ اپنی بیوی اور بچے کو بھوک سے نڈھال اور بلکتا روتا گھر میں چھوڑ کر خود غموں سے چور کہیں جا رھا تھا کہ راہ چلتے اس کا سامنا ایک عالم دین احمد بن مسکین سے ھوا جسے دیکھتے ھی ابو نصر نے کہا؛
"اے شیخ میں دکھوں کا مارا ھوں اور غموں سے تھک گیا ھوں"۔
شیخ نے کہا میرے پیچھے چلے آؤ ، ھم دونوں سمندر پر چلتے ھیں۔
سمندر پر پہنچ کر شیخ صاحب نے اُسے دو رکعت نفل نماز پڑھنے کو کہا۔ نماز پڑھ چکا تو اُسے ایک جال دیتے ھوئے کہا کہ اسے بسم اللہ پڑھ کر سمندر میں پھینکو۔
جال میں پہلی بار ھی ایک بڑی ساری عظیم الشان مچھلی پھنس کر باھر آ گئی۔ شیخ صاحب نے ابو نصر سے کہا ، اس مچھلی کو جا کر فروخت کرو اور حاصل ھونے والے پیسوں سے اپنے اھل خانہ کے لئے کچھ کھانے پینے کا سامان خرید لینا۔
ابو نصر نے شہر جا کر مچھلی فروخت کی ، حاصل ھونے والے پیسوں سے ایک قیمے والا اور ایک میٹھا پراٹھا خریدا اور سیدھا شیخ احمد بن مسکین کے پاس گیا اور اسے کہا کہ حضرت ان پراٹھوں میں سے کچھ لینا قبول کیجئے۔ شیخ صاحب نے کہا کہ اگر تم نے اپنے کھانے کے لئے جال پھینکا ھوتا تو کسی مچھلی نے نہیں پھنسنا تھا ، میں نے تمہارے ساتھ نیکی گویا اپنی بھلائی کے لئے کی تھی نہ کہ کسی اجرت کے لئے۔ تم یہ پراٹھے لے کر جاؤ اور اپنے اھل خانہ کو کھلاؤ۔
ابو نصر پراٹھے لئے خوشی خوشی اپنے گھر کی طرف جا رھا تھا کہ اُس نے راستے میں بھوکوں ماری ایک عورت کو روتے دیکھا جس کے پاس ھی اُس کا بےحال بیٹا بھی بیٹھا تھا۔ ابو نصر نے اپنے ھاتھوں میں پکڑے ھوئے پراٹھوں کو دیکھا اور اپنے آپ سے کہا کہ اس عورت اور اس کے بچے اور اُس کے اپنے بچے اور بیوی میں کیا فرق ھے ، معاملہ تو ایک جیسا ھی ھے ، وہ بھی بھوکے ھیں اور یہ بھی بھوکے ھیں۔ پراٹھے کن کو دے؟ عورت کی آنکھوں کی طرف دیکھا تو اس کے بہتے آنسو نہ دیکھ سکا اور اپنا سر جھکا لیا۔ پراٹھے عوررت کی طرف بڑھاتے ھوئے کہا؛
" یہ لو ، خود بھی کھاؤ اور اپنے بیٹے کو بھی کھلاؤ"۔
عورت کے چہرے پر خوشی اور اُس کے بیٹے کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔
ابو نصر غمگین دل لئے واپس اپنے گھر کی طرف یہ سوچتے ھوئے چل دیا کہ اپنے بھوکے بیوی بیٹے کا کیسے سامنا کرے گا؟
گھر جاتے ھوئے راستے میں اُس نے ایک منادی والا دیکھا جو کہہ رہا تھا؛
"ھے کوئی جو اُسے ابو نصر سے ملا د"۔
لوگوں نے منادی والے سے کہا، یہ دیکھو تو ، یہی تو ھے ابو نصر۔ اُس نے ابو نصر سے کہا؛ تیرے باپ نے میرے پاس آج سے بیس سال پہلے تیس ھزار درھم امانت رکھے تھے مگر یہ نہیں بتایا تھا کہ ان پیسوں کا کرنا کیا ھے۔ جب سے تیرا والد فوت ھوا ھے میں ڈھونڈتا پھر رھا ھوں کہ کوئی میری ملاقات تجھ سے کرا دے۔ آج میں نے تمہیں پا ھی لیا ھے تو یہ لو تیس ھزار درھم ، یہ تیرے باپ کا مال ھے۔
ابو نصر کہتا ھے؛
"میں بیٹھے بٹھائے امیر ھو گیا۔ میرے کئی کئی گھر بنے اور میری تجارت پھیلتی چلی گئی۔ میں نے کبھی بھی اللہ کے نام پر دینے میں کنجوسی نہ کی ، ایک ھی بار میں شکرانے کے طور پر ھزار ھزار درھم صدقہ دے دیا کرتا تھا۔ مجھے اپنے آپ پر رشک آتا تھا کہ کیسے فراخدلی سے صدقہ خیرات کرنے والا بن گیا ھوں۔
ایک بار میں نے خواب دیکھا کہ حساب کتاب کا دن آن پہنچا ھے اور میدان میں ترازو نصب کر دیا گیا ھے۔ منادی کرنے والے نے آواز دی کہ ابو نصر کو لایا جائے اور اُس کے گناہ و ثواب تولے جائیں۔
کہتا ھے؛ پلڑے میں ایک طرف میری نیکیاں اور دوسری طرف میرے گناہ رکھے گئے تو گناھوں کا پلڑا بھاری تھا۔
میں نے پوچھا آخر کہاں گئے ھیں میرے صدقات جو میں اللہ کی راہ میں دیتا رھا تھا؟
تولنے والوں نے میرے صدقات نیکیوں کے پلڑے میں رکھ دیئے۔ ھر ھزار ھزار درھم کے صدقہ کے نیچے نفس کی شہوت ، میری خود نمائی کی خواھش اور ریاکاری کا ملمع چڑھا ھوا تھا جس نے ان صدقات کو روئی سے بھی زیادہ ھلکا بنا دیا تھا۔ میرے گناھوں کا پلڑا ابھی بھی بھاری تھا۔ میں رو پڑا اور کہا ، ھائے رے میری نجات کیسے ھوگی؟
منادی والے نے میری بات کو سُنا تو پھر پوچھا؛ ھے کوئی باقی اس کا عمل تو لے آؤ۔
میں نے سُنا ، ایک فرشہ کہہ رھا تھا ھاں اس کے دیئے ھوئے دو پُراٹھے ھیں جو ابھی تک میزان میں نہیں رکھے گئے۔ وہ دو پُراٹھے ترازو پر رکھے گئے تو نیکیوں کا پلڑا اُٹھا ضرور مگر ابھی نہ تو برابر تھا اور نہ ھی زیادہ۔
مُنادی کرنے والے نے پھر پوچھا؛ ھے کچھ اس کا اور کوئی عمل؟ فرشتے نے جواب دیا ھاں اس کے لئے ابھی کچھ باقی ھے۔ منادی نے پوچھا وہ کیا؟ کہا اُس عورت کے آنسو جسے اس نے اپنے دو پراٹھے دیئے تھے۔
عورت کے آنسو نیکیوں کے پلڑے میں ڈالے گئے جن کے پہاڑ جیسے وزن نے ترازو کے نیکیوں والے پلڑے کو گناھوں کے پلڑے کے برابر لا کر کھڑا کر دیا۔ ابو نصر کہتا ھے میرا دل خوش ھوا کہ اب نجات ھو جائے گی۔
منادی نے پوچھا ، ھے کوئی کچھ اور باقی عمل اس کا؟
فرشتے نے کہا؛ ھاں ، ابھی اس بچے کی مُسکراہٹ کو پلڑے میں رکھنا باقی ھے جو پراٹھے لیتے ھوئے اس کے چہرے پر آئی تھی۔ مسکراھٹ کیا پلڑے میں رکھی گئی کہ نیکیوں والا پلڑا بھاری سے بھاری ھوتا چلا گیا۔ منادی کرنے ولا بول اُٹھا یہ شخص نجات پا گیا ھے۔
ابو نصر کہتا ھے؛ میری نیند سے آنکھ کھل گئی۔ میں نے اپنے آپ سے کہا؛ اگر میں نے اپنے کھانے کے لئے جال پھینکا ھوتا تو کسی مچھلی نے نہیں پھنسنا تھا اور اپنے کھانے کے لئے پراٹھے خریدے ھوتے تو آج نجات بھی نہیں ھونی تھی۔
Доступные форматы для скачивания:
Скачать видео mp4
-
Информация по загрузке: