جلسہ کراہ جھاٹلہ تلہ گنگ چکوال 09 دسمبر 2022
Автор: The Dazzling Chakwal
Загружено: 2022-12-09
Просмотров: 241
ثقافت جلسہ کراہ بمقام جھاٹلہ تاریخ 09 دسمبر، 2022
Jalsa Karah Jhatla، Chakwal Cultural & Traditional Bull Festival, Jhatla Distt Talagang Chakwal
#jhatla #jhatla_jalsa #jalsa_karah #karah
کراہ ثقافت یا انا کی جنگ
چکوال، صوبہ پنجاب کا ایک شہر اور ضلع چکوال کا صدر مقام ہے۔ جولائی 1985ء کو ضلع کا درجہ دیا گیا۔
چکوال اچھی نسل کے بیل اور گھوڑوں کی وجہ سے مشہور ہے۔ پاکستانی فوج میں کافی تعداد میں فوجی چکوال سے تعلق رکھتے ہیں۔ دوسرا ہندوستانی صوبیدار خداداد خان جسے وکٹوریہ کراس ملا، محمد اکبر خان جو پہلے ہندوستانی تھے جو برطانوی فوج میں جنرل بنے اور عظیم جنرل افتخار خان کا تعلق بھی چکوال سے تھا آزادی کے بعد چکوال سے بہت سی مشہور شخصیات جیسا کہ جنرل عبدالمجید ملک، جنرل عبدالقیوم شامل ہیں۔
اعوان نسل کے لوگ بہت بڑی تعداد میں آباد ہیں۔ خصوصاً علاقہ ونہار میں زیاده تر آبادی اعوان نسل پر مشتمل ہے۔
ضلع چکوال میں اس وقت جس ثقافت کو عروج حاصل ہے وہ کراہ ہے-دانداں دا جلسہ(کراہ)
جب ٹریکٹر کا دور نہیں تھا تو لوگ کھیتوں کے (دھڑے) بنانے کیلئے بیلوں کی جوڑی کو پنجالی میں جوت کر انکے پیچھے لکڑی سے تیار کردہ بلیڈ (کراہ) لگا کر کھیت کی مٹی کھینچ کر اس سے دھڑے بنایا کرتے تھے۔ کھیت میں حل چلانے اور رھٹ سے پانی نکالنے کیلئے تو درمیانی کوالٹی کے بیل چل جاتے تھے۔۔۔مگر کراہ وہی بیل کھینچتے تھے جن میں دم ہوتا تھا۔۔۔یوں کراہ والے بیل اور انکے مالک کسان پورے علاقے میں مشہور ہوتے اور کسان کمیونٹی دیہاتی لیول پر بطورانٹرٹینمینٹ ایسے بیلوں کے مالکوں کے بیچ کراہ کینچھنے اور بیلوں کی نمائش وغیرہ کے مقابلوں کا اہتمام بھی کرتی۔ پھر ٹریکٹر اور ٹیوب ویل آے اور بیل اور انسان کے بیچ قائم صدیوں پرانہ رشتہ آہستہ آہستہ ختم ہونے لگا۔
تاہم ضلع چکوال اور اسکے قرب و جوار میں کراہ کا انعقاد آج بھی بہت ذوق و شوق سے کیا جاتا ہے...کسان اسکو "دانداں دا جلسہ" کہتے ہیں-
اسے سمجھنے کیلئے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ یہ دوڑ یا ریس ہے ہی نہیں۔۔۔بلکہ اسکی سب سے بہتر تشبیح کسی فیشن شو میں ماڈلز کی طرف سے کی جانے والی کیٹ واک ہے۔۔۔جسطرح فیشن شو میں ماڈل کی ادائیں، اسکا لباس کو کیری کرنے کا انداز۔۔۔اسکی چال ڈھال اس بات کا فیصلہ کرتی ہے کہ کونسی ماڈل سب سے بہتر ہے بلکل اسی طرح اس کھیل کے ایکسپرٹ بزرگوں نے اس میں جیت کے معیار مقرر کیے ہوے ہیں اور اسی پر فیصلہ ہوتا ہے کہ بیلوں کی کونسی جوڑی "شو سٹاپر" ہے۔۔۔جلسے کا اختتام اسی جوڑی پر کیا جاتا ہے اور اس عمل کو "پِِڑ پٙٹیا گیا" یعنی شو ختم ہوا ۔۔۔کہا جاتا ہے۔
بزرگوں کے نزدیک ایک کم طاقت ور بیل کی فطرت ہے کہ جب اسپر کراہ کی مٹی کو کھینچنے کا زور پڑتا ہے تو وہ اس وزن سے جان چھڑوانے کیلئے تیز تیز قدم اٹھانے کی کوشش کرتا ہے۔۔۔اس پر کسان لوگ برملا یہ جملہ کہتے ہیں کہ "داندا دے پیر پٹے گئے نوں بھائی"۔۔۔جبکہ ایک "پِھٹے ہوے" بدمست اور طاقت ور بیل پر جب کراہ کا وزن ڈالا جاتا ہے تو گویا وہ اس وزن کو کوئی لفٹ نہیں کراتا اور اسکی چال کی مستی میں دھاگے بھر کا بھی فرق نہیں پڑتا-
یہ ایک شوق ہے اور شوق بھی دن بدن مہنگا ہوتا جا رہا ہے، اس شوق کی خاطر لوگ لاکھوں روپے لگا کر بیل خریدتے ہیں اور بھی اسکی خاطر مدارت کے لیے ہزاروں روپے خرچ کر کے بیل کو کامیاب پھیرے کے قابل بناتے ہیں - یہ چونکہ شوق ہے لہذا ہم اس کو فضول خرچی نہیں کہہ سکتے جو اس شوق کو اپناتا ہے وہ اپنے خرچے اور اپنی مالی حیثیت کا اندازہ خود اچھی طرح کر سکتا ہے، مگر جو سب سے بری روش اس شوق کو لے کر ان دنوں دیکھنے میں آئی وہ انا، دھڑے بازی، اور مخالفت ہے-ایک ہی دن تین، تین جلسے رکھنا اور پھر انکے لیے مقابلے کے طور پر بیلوں کا انتظام کرنا، مقابلہ بازی کی فضا قائم کرکے انتقامی رویہ اختیار کرنا اور ایک دوسرے کے ساتھ مضحکہ خیز جملے بازی نے اس شوق اور ثقافت کا سارا لطف چھین لیا ہے- ایک ہی دن تین، چار جلسے شائقین اور جلسے کے وقار کی توہین ہے- اس طرح نہ شائقین اس شوق سے لطف اندوز ہوسکتے ہیں اور نہیں ہی داندی حضرات کو اس دھڑے بازی سے کوئی فائدہ حاصل ہوگا-
شوق کو شوق کی حد تک رکھنا اور اچھے طریقے سے اس شوق کی آبیاری کرنا ہی مقدم ہے-یہ دھڑے بازیاں اور مقابلے اس شوق اور کراہ ثقافت کو لے ڈوبیں گے- داندی خضرات، بانیانِ جلسہ، انتظامیہ اور دیگر تمام لوگ جو اس شوق اور ثقافت کی خاطرخواہ تروایج و ترقی کے لیے کام کر رہے ہیں انہیں اس مسئلے کے لیے ایک جگہ اکٹھے ہو کر اس مسئلے کا حل نکالنا ہوگا، ورنہ یہ شوق بھی آنا کی زد میں آکر اپنی خوبصورتی کھو دے گا
Доступные форматы для скачивания:
Скачать видео mp4
-
Информация по загрузке: